عورت مارچ، اصل مسئلہ ہے کیا؟


Sunday, March 8, 2020

ADVERTISEMENT

ماہ مارچ کے قریب آتے ہی ’عورت مارچ‘ کا شور بھی پوری قوت سے سنائی دینے لگا ہے اور ہر طرف یہ رفتہ رفتہ موضوع بحث بنتا جارہا ہے۔ میرے نزدیک عورت مارچ میں اسلام اور لبرل ازم کی بحث سرے سے بے محل و غیرمتعلق ہے۔ کسی بھی دوسرے مسئلے و معاملے کی طرح ہمیں یہاں بھی بنیادی اصول سمجھ لینا چاہیے۔

کسی بھی تحریک، مارچ اور اجتماع وغیرہ میں شمولیت و عدم شمولیت اور حمایت و مخالفت کےلیے لازم ہے کہ سب سے پہلے اس کے اغراض و مقاصد، اس کے منشور اور اس کے مجموعی رجحانات اور سرگرمیوں کا عمیق جائزہ لیا جائے۔ اس مبنی بر انصاف جائزے کی روشنی میں اتفاق و اختلاف اور شمولیت و عدم شمولیت کا فیصلہ کیا جائے۔

عورت مارچ کے متعلق اب تک جو کچھ سامنے آچکا ہے اور جو کچھ میں دیکھ سکا ہوں اور اس پر پھر فرقت و فرصت میں غور کرسکا ہوں، اس کے مطابق اس مارچ میں وہ مطالبات اور حقوق سرے سے شامل ہی نہیں ہیں جن کا عموماً اس معاشرے کی غریب و متوسط طبقے کی عورتوں کی اکثریت کو سامنا ہے۔ صد حیف مگر کہنا پڑتا ہے کہ عورت مارچ میں آزادی نسواں کے نام پر حقیقی مسائل کے بجائے مرد و عورت کو نہ صرف باہم مقابل ٹھہرا کر تقسیم کیا جاتا ہے، بلکہ باقاعدہ رقابت کی فضا پیدا کردی گئی ہے۔

جو کچھ اُن پلے کارڈز و نعروں کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے ان میں سے ایک بھی حقیقی معنوں میں مسئلہ نہیں ہے۔ مثلاً کھانا کس نے گرم کرنا ہے، یہ کوئی سماجی مسئلہ نہیں ہے۔

عورت کے بنیادی مسائل تعلیم، غربت، جہالت، جبری شادی، غیرت کے نام پر قتل، تشدد اور ہراسگی ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کا تعلق نہ ان نعروں سے ہے، نہ اس مارچ سے۔ ان مسائل کی تشہیر کےلیے یا ان کو حل کرنے کےلیے جو رویہ اور طرز عمل اس وقت اختیار کیا جاچکا ہے وہ بنیادی طور پر غلط ہے۔ معاشرتی مسائل کا حل کبھی بھی انتہاؤں پر جاکر، جارحانہ انداز اپنا کر اور ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہوکر نہیں ڈھونڈا جاسکتا۔

انسانی تاریخ کی حقیقت ہے کہ جب بھی افراد باہم کوئی رشتہ قائم کرتے ہیں یا جب وہ باہم مل کر رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کے امور ہمیشہ باہم مشاورت و اشتراک سے انجام پاتے ہیں۔ اس باہم اشتراک میں رتی برابر فرق بھی اس اشتراک اور آخرکار اس رشتے اور اجتماعیت کو ختم کردیتا ہے۔ بعینہ اسی طرح ازدواجی تعلق بھی ایک اشتراکی اور باہم تعاون کا تعلق ہے، نہ کہ کوئی بار و بوجھ ہے۔ افراد کی اجتماعیت کا سب سے بڑا اظہار ریاست اور معاشرہ ہے۔ ہر ریاست اور معاشرہ ہمیشہ افراد اور طبقات کے باہم اشتراک سے چلتا ہے۔ معاشرے کے دوسرے طبقات کی طرح مرد و عورت بھی ایک معاشرے کے بنیادی طبقات اور بنیادی ارکان ہیں۔ اور ان میں کسی بھی طرح کی تقسیم و مقابل معاشرتی تقسیم اور معاشرتی بدنظمی ہے۔

عورت مارچ کی قیادت اس وقت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، بدقسمتی سے یہ وہی لوگ ہیں جو سنجیدہ حل کی تلاش کے بجائے مجرد نقد و تنقید اور لعن و طعن کو حتمی حل سمجھ بیٹھے ہیں اور ان کے پیش نظر ہمیشہ سے اخلاقی و مذہبی اقدار رہی ہیں۔

معاشرے صرف قوانین اور جغرافیہ سے نہیں بنتے، بلکہ معاشرتی اقدار ایک معاشرے کے مجموعی نظم کے قیام و دوام میں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ اقدار مذہبی بھی ہوسکتی ہیں، اخلاقی بھی اور تاریخی بھی۔ کوئی قدر محض مذہبی ہونے کی بنیاد پر قابل اعتراض نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ رویہ ایک اور بنیادی غلطی ہے۔

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور پاکستان میں ایک نہیں درجنوں مسائل موجود ہیں۔ تنہا عورت ہی نہیں مرد بھی ان مسائل کا شکار ہے۔ ہر باشعور پاکستانی ان مسائل کے حل کا سچا طالب ہے، لیکن مسئلے کا حل مرد و عورت کی باہم رقابت نہیں بلکہ مسئلے کا حل مرو و عورت کی باہم رفاقت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post عورت مارچ، اصل مسئلہ ہے کیا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3aDts7Q
via
ad